Home Blog

Kids Story Sachai ka Inam

2
Sachai ka inam
Sachai ka inam

سچائی کا انعام

ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد بہت ذہین اور خوش اخلاق تھا لیکن اسے ایک بری عادت تھی، وہ کبھی کبھی جھوٹ بول دیتا تھا۔ اس کی امی اسے ہمیشہ سمجھاتی تھیں کہ جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے، لیکن وہ ہر بار سوچتا کہ ایک چھوٹا سا جھوٹ کوئی بڑی بات نہیں۔

ایک دن احمد جنگل میں لکڑیاں چننے گیا۔ وہاں اس نے ایک خوبصورت پرندہ دیکھا جو چمکدار پروں والا تھا۔ احمد نے پرندے کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن پرندہ اڑ گیا۔ اچانک،

Sachai ka inam
Sachai ka inam

احمد کو ایک چمکتی ہوئی چیز زمین پر پڑی نظر آئی۔ جب اس نے غور سے دیکھا تو یہ ایک سنہری چابی تھی۔

احمد نے چابی اٹھا لی اور سوچنے لگا کہ یہ کس کی ہو سکتی ہے۔ وہ گاؤں میں واپس آیا اور سب سے پوچھا، لیکن کسی کی بھی نہیں تھی۔ وہ حیران تھا کہ یہ چابی کہاں استعمال ہو سکتی ہے۔ اگلے دن، احمد دوبارہ جنگل گیا اور ایک پرانے درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا دروازہ دیکھا۔

احمد نے اپنی چابی نکالی اور تالے میں ڈالی۔ دروازہ کھل گیا اور اندر ایک چمکتا ہوا صندوق رکھا تھا۔ احمد نے صندوق کھولا تو اس میں سنہری سکے اور قیمتی جواہرات تھے۔ اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔

لیکن اچانک، اس کے دل میں خیال آیا کہ کیا یہ خزانہ اس کا ہے؟ نہیں! یہ تو کسی اور کا ہو سکتا ہے۔ احمد کو یاد آیا کہ اس کی امی نے کہا تھا کہ ایمانداری سب سے بڑی خوبی ہے۔

احمد نے گاؤں کے سردار کو جا کر سب کچھ بتا دیا۔ سردار بہت خوش ہوا اور کہا کہ یہ خزانہ درحقیقت گاؤں کے ایک بزرگ کا تھا جو کئی سال پہلے گم ہو گیا تھا۔ سردار نے احمد کی ایمانداری کی تعریف کی اور فیصلہ کیا کہ خزانے کا کچھ حصہ احمد کو دیا جائے، کیونکہ اس نے سچائی کا ثبوت دیا تھا۔

احمد بہت خوش ہوا اور اس دن کے بعد اس نے کبھی جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا۔ اس نے سیکھا کہ سچ بولنے اور ایمانداری سے ہمیشہ انعام ملتا ہے۔

سبق: سچائی ہمیشہ بہترین راستہ ہے، اور ایمانداری کا صلہ ضرور ملتا ہے۔

نیکی کا انعام – Quotes

 

Serat-un-Nabi Arab main bot parasti or mushrakeen k aqaid

0
Serat un Nabi

Table of Contents

“سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم”

عرب میں بت پرستی اور مشرکین مکہ کے عقائد

In this episode of Serat un Nabi Discover the history of idol worship in pre-Islamic Arabia, the major idols like Hubal, Al-Lat, Al-Uzza, and Manat, and how the Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) eradicated these practices, bringing the light of monotheism to the Arabian Peninsula.

قسط نمبر: ۵
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت عربوں اور خصوصا” مشرکین مکہ میں جن        بتوں کو بہت اھم جانا جاتا تھا ان کی تفصیل درج ذیل ھے
:ھبل
یہ مشرکین مکہ کے سب سے اھم ترین بتوں میں سے ایک تھا.. دراصل یہ اھل شام کا دیوتا “بعل” تھا جس کے معنی “طاقتور” کے ھیں اور جسے عربوں نے (بعل کی تحریف شدہ شکل) ھبل کا نام دیا.. یہ بت قریش مکہ کو انسانی مورت کی شکل میں ملا جو سرخ عقیق سے تراشا ھوا تھا.. اس کا دایاں ھاتھ ٹوٹا ھوا تھا.. قریش مکہ نے وہ سونے کا بنوا کر لگا دیا.. ھبل خاص خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا.. مشرکین مکہ جنگوں میں اسی ھبل کا نام لیکر نعرے لگاتے تھے.. فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے پاش پاش کیا
:عزی

مکہ سے چند میل دور وادی نخلہ میں کیکر کے ایک درخت کے نیچے عزی’ کا تھان تھا جہاں عزی’ کا بت نصب تھا جبکہ خانہ کعبہ میں بھی عزی’ کا بت رکھا ھوا تھا جسے فتح مکہ کے وقت توڑا گیا.. جبکہ وادی نخلہ میں عزی’ کے اصل بت کو توڑنے کے لیے حضرت خالد بن ولید

Serat un Nabi
Serat un Nabi

رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا.. عزی’ کا بت مشرکین مکہ کے نزدیک سب سے عظیم ترین بت تھا

:لات

یہ طائف میں اس جگہ نصب تھا جہاں آج کل مسجد طائف کا بایاں مینار ھے.. لات کے معنی ھے “ستو گھولنے والا”.. دراصل یہ ایک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا.. بعد میں عمرو بن لحی کے ایما پر اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کی جانے لگی.. قریش رات سونے سے پہلے عزی’ اور لات کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور قسم بھی انہی دو بتوں کی کھایا کرتے تھے

:منات

یہ عرب کا سب سے قدیم ترین بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے بیچ میں “مشلل” کے علاقہ میں “قدید” کے مقام پر سمندر کے قریب نصب تھا.. منات کی پوجا کا آغاز بھی عمرو بن لحی نے کیا.. قبائل اوس و خزرج جب حج کرکے واپس مدینہ کو روانہ ھوتے تو منات کے بت کے پاس ھی احرام اتارا کرتے جبکہ بنو ازد اور بنو غسان تو باقائدہ اسی بت کا حج بھی کرتے تھے.. اھل مدینہ کے نزدیک حج کی تکمیل تب تک نہ ھوتی تھی جب تک منات کی پوجا نہ کی جاۓ.. اس بت کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر فتح مکہ کے لیے جاتے ھوۓ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے منہدم کردیا

:اساف و نائلہ

یہ انسانی شکل کے بت تھے.. دراصل ایک مرد “اساف” اور عورت “نائلہ” کعبہ میں زنا کے مرتکب ھوۓ اور جب لوگوں نے آکر دیکھا تو وہ پتھر بن چکے تھے.. اھل مکہ نے انہیں عبرت کے لیے صفا اور مروہ پر رکھ دیا تھا مگر انہیں بھی عمرو بن لحی حرم کعبہ میں لے آیا اور زم زم کے پاس رکھ دیا.. لوگ ان کا طواف بھی کرتے اور قربانیاں بھی کرتے تھے

:سواع
یہ ان پانچ بتوں میں شامل تھا جن کو قوم نوح پوجا کرتی تھی اور جنہیں عمرو بن لحی شام سے لایا تھا.. باقی چار بتوں میں نسر, ود, یعوق اور یغوث شامل ھیں.. یہ بت عورت کی شکل میں تھا اور مدینہ منورہ کے قریب نصب تھا

:نسر

یہ بت یمن میں حمیر کے علاقے میں نصب تھا.. یہ گدھ کی شکل میں تھا.. اھل حمیر تب تک اس کی پوجا کرتے رھے جب تک انہوں نے یہودی مذھب اختیار نہ کرلیا

:یعوق

یعوق کے معنی “مصیبت روکنے والا” ھیں.. گھوڑے کی شکل والا یہ بت عمرو بن لحی شام سے لایا تھا اور اسے بنو ھمدان و خولان کے حوالے کیا تھا جو اسے اپنے ساتھ یمن لے گئے اور اسے “صنعاء” سے کچھ فاصلے پر “ارحب” کے مقام پر نصب کرکے اس کی پوجا شروع کردی

:یغوث

یہ بت بھی یمن کے ایک علاقہ “اکمہ” میں نصب تھا.. یہ شیر کی شکل کا بت تھا.. یغوث کے معنی “فریاد کو پہنچنے والا” ھیں

:ود

یہ بت دومتہ الجندل کے مقام پر نصب تھا اور بنو کلب اس کی پوجا کرتے تھے جبکہ قریش مکہ بھی اس کی عظمت کے قائل تھے اور اس کو پوجتے تھے
انکے علاوہ عائم, الضیزنان, اقیصر, الجلسد, ذوالخلصہ, ذوالشری اور ذوالکفین بھی عربوں کے اھم بتوں میں شامل ھیں جبکہ غیر اھم بتوں کی ایک کثیر تعداد ان کے علاوہ ھے
درحقیقت مشرکین مکہ و عرب ان بتوں کو معبود حقیقی نہیں مانتے تھے بلکہ وہ اللہ کو ھی واحد معبود حقیقی مانتے تھے.. وہ ان بتوں کو اللہ کی بارگاہ میں اپنا سفارشی تصور کرتے تھے اور وہ ان بتوں کی تعظیم و عبادت اس اعتقاد کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ ان کو اللہ سے قریب کردیں گے.. دوسرا وہ تصور کرتے تھے کہ ان بتوں کو خدائی صفات میں سے قوتیں اور طاقتیں حاصل ھیں لیکن بہرحال حقیقی رازق و مالک وہ اللہ کو ھی مانتے تھے.. دراصل مشرک ھوتا ھی وھی ھے جو اللہ کو مان کر پھر اس کی ذات, صفات یا عبادت میں کسی اور کو شریک کرے
ان مشرکانہ عقائد کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرکین مکہ بری طرح سے توھم پرستی کا شکار ھوگئے.. وہ بات بات سے نیک و بد شگون لیتے اور پھر برے شگون سے بچنے کے لیے کاھنوں کی خدمات حاصل کرتے.. اس طرح کاھنوں کا جنتر منتر اور ٹوٹکوں کا کاروبار خوب چمکا ھوا تھا.. کاھن لوگ جنوں بھوتوں کے مطیع ھونے کا دعو’ی کرتے اور لوگوں کو جھوٹی سچی غیب کی خبریں دیتے تھے.. شرک و بت پرستی میں ڈوبے یہ عرب انتہا درجے کے رسوم پرست تھے اور جاھلانہ رسوم و رواج کا ایک طویل سلسلہ ان کے ھاں رائج تھا
ان کی بت پرستی اور توھم پرستی کی بعض نہائت مضحکہ خیز پہلو بھی مؤرخین نے بیان کیے ھیں مثلا” سفر پر روانہ ھوتے تو ایک پتھر جیب میں ڈال لیتے.. راستے میں اگر کوئی اور اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے “خدا” کو جیب سے نکال کر پھینک دیتے اور نئے “خدا” کی پرستش شروع کردیتے
اگر روانگی کے وقت پتھر ساتھ لینا بھول جاتے تو راستے میں جس منزل پر رکتے تو وھاں سے ھی چار پتھر تلاش کرتے.. تین کا چولہا بناتے اور چوتھے کو معبود بنا لیتے.. اگر کہیں پتھر نہ ملتے تو مٹی اور کنکریوں کا ایک ڈھیر جمع کرکے اس پر بکری کا دودھ بہاتے اور پھر اس

Serat un Nabi
Serat un Nabi

کے سامنے سجدہ ریز ھوجاتے
ذوق بت پرستی صرف پتھر تک محدود نہ تھا.. لکڑی اور مٹی کے بھی بت بناۓ جاتے.. ایک مرتبہ بنو حنیفہ نے کجھوروں کے ایک ڈھیر کی عبادت شروع کردی.. اسی اثناء میں قحط پڑ گیا.. جب کھانے کو اور کچھ نہ ملا تو سب نے مل کر اپنے “خدا” کو ھی کھا کر ختم   کردیا
یوں خانہ کعبہ جو زمین پر اللہ کا سب سے قدیم اور مقدس ترین گھر ھے مشرکین کے ھاتھوں شرک و گمراھی کا گڑھ بن چکا تھا.. اھل مکہ کے نذدیک سب سے اھم بت لات, منات, عزی’ اور ھبل سمیت لگ بھگ تین سو ساٹھ چھوٹے بڑے بت تھے جو حرم کعبہ میں نصب تھے.. عرب ان کی پوجا بھی کرتے اور ان پر قربانیاں بھی پیش کرتے.. حج کے دنوں میں یہ کفر و ضلالت کے مناظر اور بڑھ جاتے جب حج کو آنے والے ننگے ھو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے.. بتوں کے آگے فال نکالنے والے پانسے پھینکے جاتے اور نذریں مانی جاتیں
غرضیکہ شیطانیت سرزمین عرب پر اپنی انتہا کرچکی تھی اور عرب قوم شرک و گمراھی میں پستی کے جس مقام پر پہنچ چکی تھی اس سے آگے کوئی اور پست مقام نہ تھا.. اب اللہ کی شان رحمانیت کی باری تھی.. چنانچہ انہی مشرکین کے بیچ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرکے شرک و کفر کے بت پر وہ کاری ضرب لگائی کہ روۓ زمین کے چپہ چپہ پر توحید و واحدانیت کے چراغ روشن کبھی نہ بجھنے کے لیےھوگئے

اگلی قسط میں ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت سرزمین عرب میں رائج باقی مذاھب کا ایک مختصر تذکرہ کیا جاۓ گا

https://4uquotes.com/serat-un-nabi-episode-no-2

 

Serat-un-Nabi Episode # 4 Incident of the Year of the Elephant abraha’s attack

0
Serat-un-Nabi

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Summary

The article discusses the Incident of the Year of the Elephant, when Abraha marched towards Makkah to destroy the Kaaba. However, Allah sent Ababeel birds carrying stones, which wiped out his army, as mentioned in Surah Al-Fil. This event demonstrated Allah’s divine protection of the Kaaba. The article also explores the spread of idolatry in Arabia and how Prophet Muhammad (PBUH) was born 50 days after this incident, bringing the message of monotheism. Additionally, it includes images of Abraha’s army, Abdul Muttalib’s supplication, and Ababeel birds attacking Abraha’s forces.

اسلام کا آغاز اور واقعہ عام الفیل

:تعارف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی انسانیت کے لیے ہدایت کا چراغ ہے۔ آپ کی پیدائش ایک نئے دور کا آغاز تھی جس نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس مضمون میں آپ کے نسب سے لے کر مشہور واقعہ عام الفیل تک کے اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔

:نسب اور ولادتِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

پچھلی قسط میں ہم نے پڑھا کہ حضرت ہاشم نے روم سے تجارتی تعلقات قائم کیے اور سفر کے دوران ان کا انتقال ہوا۔ ان کے بیٹے شیبہ کو چچا نے پالا اور وہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت عبدالمطلب نے اپنی منت کے تحت حضرت عبداللہ کو قربان کرنے کا ارادہ کیا، لیکن قرعہ اندازی کے ذریعے سو اونٹوں کا فدیہ دیا گیا۔ حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ سے ہوئی، جن کے بطن سے رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی۔

Khana kaba per hamla
abraha ka hathion sy hamla Abraha’s attack on khana kaba

یہ مبارک ولادت مشہور واقعہ عام الفیل کے وقت ہوئی، جب ابرہہ نے خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعے اس کے لشکر کو تباہ کردیا۔ یہ واقعہ قرآن مجید کی سورہ الفیل میں بھی ذکر کیا گیا ہے (مزید پڑھیں)۔

:واقعہ عام الفیل

قریش اتنی بڑی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، اس لیے حضرت عبدالمطلب نے مکہ کے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اہل و عیال اور مال مویشیوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ قتل عام سے بچ سکیں۔ پھر وہ چند سرداروں کے ساتھ خانہ کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور دعا کی:

“اے اللہ! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، تو اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ ان کی صلیب اور سازشیں تیری تدبیر پر غالب نہ آئیں۔

ابرہہ کی فوج جب مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھی تو اس کے خاص ہاتھی محمود نے چلنے سے انکار کر دیا۔ جتنا بھی زور لگایا گیا، وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ مگر جب اس کا رخ شام یا یمن کی طرف کیا جاتا، تو وہ فوراً چلنے لگتا۔ اس دوران، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ابابیل کے جھنڈ آئے، جن کے چونچ اور پنجوں میں سنگریزے تھے۔ انہوں نے ابرہہ کے لشکر پر سنگریزے برسانا شروع کیے، جس سے پوری فوج تباہ ہو گئی۔

:واقعے کے بعد اور بت پرستی کا آغاز

ابرہہ کی فوج کی ہلاکت کے بعد یہ واقعہ اہل عرب کے لیے نشان عبرت بن گیا۔ اس کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ عرب میں بت پرستی کا رواج بڑھنے لگا۔ قبیلہ بنو خزاعہ کے سردار عمرو بن لحی نے شام سے بت لا کر خانہ کعبہ میں رکھ دیے اور ان کی عبادت کا آغاز کیا۔

Khana Kaba main buat parasti

یہی وہ وقت تھا جب عرب مکمل طور پر شرک میں مبتلا ہو چکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دینِ حق کی دعوت کے لیے مبعوث فرمایا۔

:نتیجہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ایک ایسے دور میں ہوئی جب عرب شرک اور جہالت میں مبتلا تھے۔ واقعہ عام الفیل نے اللہ کی قدرت اور مکہ کی حرمت کو ثابت کیا، جو بعد میں اسلام کی بنیاد رکھنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

To read previous episodes click here

 

Serat-un-Nabi Episode No#3

0
Serat-un-Nabi

Table of Contents

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قسط نمبر:        ٣

“Serat-un-Nabi” is the biography of Prophet Muhammad (PBUH), detailing his life, teachings, and moral legacy, serving as a spiritual guide for Muslims.

سیرت النبی کی گزشتہ قسط میں ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی، اور زم زم کے چشمے کے ظہور کا ذکر کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر کی، اور ان کی قربانی کی سنت تا قیامت جاری رہی۔ قریش کے جد امجد، قصی بن کلاب نے مکہ کو ایک منظم ریاست بنایا اور خانہ کعبہ کے انتظامی امور کو قبائل میں تقسیم کیا۔ بعد میں حضرت ہاشم، حضرت ابو بکر، حضرت عمر، اور حضرت خالد بن ولید کے قبائل کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں، جو بعثت نبوی تک جاری رہیں۔
حضرت    ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے.. چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمی’ سے ھوئی مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ھاشم کا انتقال ھوگیا
ان کی وفات کے بعد ان کا ایک بیٹا پیدا ھوا جس کا نام ” شیبہ ” رکھا گیا مگر چونکہ شیبہ کو ان کے چچا مطلب بن عبد مناف نے پالا پوسا تو شیبہ کو عبدالمطلب (مطلب کا غلام) کہا جانے لگا اور پھر انہیں تاریخ نے ھمیشہ اسی نام سے یاد رکھا
حضرت عبدالمطلب بے حد حسین جمیل, وجیہہ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.. اللہ نے انہیں بیحد عزت سے نوازا اور وہ قریش مکہ کے اھم ترین سردار بنے
ایک مدت تک ان کی اولاد میں ایک ھی بیٹا تھا جن کا نام حارث تھا.. حضرت عبدالمطلب کو بہت خواھش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ھوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے
اللہ نے ان کی دعا اور منت کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس یا بارہ بیٹے پیدا ھوئے جن میں سے ایک جناب حضرت عبداللہ تھے
آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹ بیٹے تھے اور نہ صرف اپنے والد کے بلکہ پورے خاندان کے بہت چہیتے تھے.. حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی

خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش

 

دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی.. چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے.. جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا
حضرت عبدالمطلب یہ دیکھ کر بہت پریشان ھوۓ کیونکہ شدت محبت کی وجہ سے ان کا دل نہ چاھتا تھا کہ حضرت عبداللہ کو قربان کردیں مگر چونکہ وہ منت مان چکے تھے تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاھتے تھے.. چنانچہ حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے
یہ دیکھ کر خاندان بنو ھاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا ‘ بہت پریشان ھوۓ.. وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاھنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا.. چنانچہ جب اس کاھنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ.. عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ھیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا
چنانچہ ایسے ھی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا.. اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا
حضرت عبداللہ کی شادی بنو زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف کی بیٹی جناب حضرت آمنہ سے ھوئی جن کے بطن سے تاجدار دوجہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی
اس سے پہلے کہ ھم کا باقائدہ آغاز کریں ضروری ھے کہ پیج میمبرز کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت قریش مکہ کے مذھبی, سیاسی, معاشرتی, معاشی اور تمدنی حالات سے روشناس کرایا جاۓ.. نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے ظہور پذیر ھونے والے واقعہ “عام الفیل” سے بھی     آگاہ کیا جاۓ جب حبشی نژاد “ابرھہ” خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا

:سورہ الفیل میں ابرھہ کا واقعہ
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ھاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا..؟
کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا..؟
اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے
اس طرح اللہ نے ان کو کھاۓ ھوۓ بھوسے کی طرح کردیا
سورہ الفیل.. آیت 1 تا  5
واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمد مصطفی’ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران “ابرھہ بن اشرم” 60 ھزار فوج اور 13 ھاتھی لیکر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا   

:ابرھہ کا خانہ کعبہ پر حملہ
ابرھہ بن اشرم آغاز میں اس عیسائی فوج کا ایک سردار تھا جو شاہ حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا “یوسف ذونواس” کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے. کو بھیجی جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی.. ابرھہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ھوۓ بالآخر یمن کا خود مختار بادشاہ بن بیٹھا لیکن کمال چالاکی سے اس نے براۓ نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کیے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رھا
ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا۔ اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا
اس مقصد کے اس نے یمن کے دارالحکومت “صنعاء” میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا جسے عرب مؤرخین “القلیس” اور یونانی “ایکلیسیا” کہتے ھیں.. اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے.. ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ھوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی, وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ھاتھ آ جاتی
ابرھہ نے پہلے شاہ جبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھر یمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ ” میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رھوں گا
اس کے اس اعلان پر غضب ناک ھو کر ایک عرب (حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کرڈالی.. اپنے کلیسا کی اس توھین پر ابرھہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں
اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ھزار فوج اور 13 جسیم ھاتھی لیکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ھونے کے ارادے سے نکلا.. راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست کھائی اور ابرھہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام “المغمس” میں پہنچ گیا
یہاں ابرھہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اھل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لیے گئے جن میں مکہ کے سردار اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ھاشم کے دو سو اونٹ بھی تھے.. اس کے بعد ابرھہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اھل مکہ کو پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ھوں بلکہ اس گھر (کعبہ) کو گرانے آیا ھوں.. اگر تم نہ لڑو تو میں تمھاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا
حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا.. “ھم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ھے.. کعبہ اللہ کا گھر ھے وہ چاھے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا
ایلچی نے کہا.. “آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں..” وہ اس پر راضی ھوگئے
حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.. ابرھہ ان کی مردانہ وجاھت سے اتنا متاثر ھوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا.. پھر آپ سے پوچھا.. “آپ کیا چاھتے ھیں..؟
انہوں نے کہا.. “میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ھیں میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاھتا ھوں
ابرھہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ھوا اور کہا.. “آپ مجھ سے اپنے دوسو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کررھے ھیں مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ھے.. میں اسے گرانے آیا ھوں مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ھی نھیں
یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا.. “ان اونٹوں کا مالک میں ھوں اس لیے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کررھا ھوں.. رھا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ھے وہ اس کی حفاظت خود کرے گا
ابرھہ نے متکبرانہ انداز میں کہا.. “کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا
حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا.. “یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ.. لیکن یہ اس کا گھر ھے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ھونے دیا.. ” یہ کہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرھہ سے واپس لیے گئے اونٹ لیکر مکہ آگئے

https://4uquotes.com/serat-un-nabi-episode-no-2 – Quotes

Kids story qurdat k faslye qabool karna sekho – Quotes kid’s story for kids

 

Kids story qurdat k faslye qabool karna sekho

1

Moral Story For Kids

!قدرت کے فیصلے قبول کرنا سیکھو

ایک گاؤں میں ایک چھوٹا سا لڑکا رہتا تھا جس کا نام علی تھا۔ علی بہت ہوشیار اور محنتی تھا، لیکن اس کی ایک عادت تھی جو اسے ہر وقت پریشان کرتی تھی۔ وہ ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا تھا۔ چاہے وہ اس کے کھلونے ہوں، اس کے دوست، یا حتیٰ کہ اس کے ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی چیزیں، علی ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔

ایک دن علی کے گاؤں میں ایک بزرگ صوفی آئے۔ وہ بہت دانا اور پراسرار انسان تھے۔ گاؤں کے لوگ ان کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے اور وہ انہیں بہت اچھے طریقے سے حل کرتے۔ علی نے بھی سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی اپنی پریشانی ان بزرگ کے سامنے رکھے۔

علی بزرگ کے پاس گیا اور کہنے لگا، “بابا جی، میں ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہوں، لیکن ایسا کرنے سے میں ہمیشہ پریشان رہتا ہوں۔ میں کیا کروں؟”

بزرگ نے مسکرا کر علی کی طرف دیکھا اور کہا، “بیٹا، تمہاری پریشانی کا حل بہت آسان ہے۔ تمہیں صرف ایک چیز سیکھنی ہے۔”

علی نے حیران ہو کر پوچھا، “وہ کیا ہے بابا جی؟”

بزرگ نے کہا، “تمہیں سیکھنا ہے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔”

علی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ چیزیں اپنے قابو میں نہیں رکھے گا تو پھر وہ کیسے ٹھیک ہوں گی؟ بزرگ نے علی کی الجھن محسوس کی اور کہا، “چلو، میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔”

بزرگ نے کہانی شروع کی:

“ایک جنگل میں ایک چھوٹا سا پرندہ رہتا تھا۔ وہ پرندہ بہت خوبصورت تھا اور اس کے پر رنگ برنگے تھے۔ وہ ہر روز اڑتا، گاتا، اور درختوں کے درمیان خوشی سے زندگی گزارتا تھا۔ لیکن ایک دن اس پرندے نے دیکھا کہ ایک بڑا سا طوفان آنے والا ہے۔ بادل گرج رہے تھے اور ہوا تیز ہو رہی تھی۔

پرندے نے سوچا کہ اگر طوفان آ گیا تو اس کا گھونسلہ ٹوٹ جائے گا اور وہ بے گھر ہو جائے گا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ طوفان کو روکنے کی کوشش کرے گا۔ وہ اڑتا ہوا بادلوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگا، ‘براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے خوبصورت پر دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

بادلوں نے پرندے کی بات سنی اور مسکرا کر کہا، ‘ہم تمہارے پر نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام بارش برسانا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے نے یہ بات سنی لیکن اسے سمجھ نہیں آئی۔ وہ پھر ہوا کے پاس گیا اور کہنے لگا، ‘اے ہوا، براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے گیت دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

ہوا نے پرندے کی بات سنی اور کہا، ‘ہم تمہارے گیت نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام ہوا چلانا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پھر درخت کے پاس گیا اور کہنے لگا، ‘اے درخت، براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے انڈے دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

درخت نے پرندے کی بات سنی اور کہا، ‘ہم تمہارے انڈے نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پھر زمین کے پاس گیا اور کہنے لگا، ‘اے زمین، براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے پتے دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

Qurdat k faslye qabool karna sekho
Qurdat k faslye qabool karna sekho

زمین نے پرندے کی بات سنی اور کہا، ‘ہم تمہارے پتے نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام ہر چیز کو اپنے اندر سموئے رکھنا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پھر اپنے گھونسلے میں واپس آیا اور سوچنے لگا کہ اب وہ کیا کرے۔ طوفان آیا اور اس کا گھونسلہ ٹوٹ گیا۔ پرندہ بہت اداس ہوا لیکن اس نے دیکھا کہ طوفان کے بعد آسمان صاف ہو گیا اور ایک نیا دن شروع ہوا۔

پرندے نے سوچا کہ شاید بزرگ کی بات درست تھی۔ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے ایک نئے سرے سے اپنا گھونسلہ بنایا اور پھر سے خوشی سے زندگی گزارنے لگا۔”

بزرگ نے کہانی ختم کی اور علی کی طرف دیکھا۔ علی نے کہا، “بابا جی، کیا یہ کہانی میرے لیے ہے؟”

بزرگ نے مسکرا کر کہا، “ہاں بیٹا، یہ کہانی تمہارے لیے ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ جب تم یہ سیکھ لو گے تو تمہاری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔”

علی نے بزرگ کی بات غور سے سنی اور اسے سمجھ میں آ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ وہ سیکھ گیا تھا کہ کچھ چیزیں قدرت کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔

علی نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس چلا گیا۔ اس دن کے بعد سے علی کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ وہ اب ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اور اس کی پریشانیاں ختم ہو گئی تھیں۔

“جو چیز قابو میں نہ ہو، اسے جانے دو”

https://4uquotes.com/serat-un-nabi-episode-no-2

Kids story ایک نیک کسان کی کہانی

چھوٹے خرگوش کی کہانی

https://4uquotes.com/serat-un-nabi-episode-no-2

1

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
Episode-no-2 

قسط نمبر: ٢   

“Serat-un-Nabi” is the biography of Prophet Muhammad (PBUH), detailing his life, teachings, and moral legacy, serving as a spiritual guide for Muslims.

پچھلی قسط میں خانوادہ ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت اور پھر ننھے اسماعیل علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نیچے سے زم زم کے چشمے کے پھوٹ پڑنے کا ذکر کیا گیا.. یہ چشمہ دراصل مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں زندگی کی نوید تھا.. پہلے قبیلہ جرھم جو پانی کی تلاش میں عرب کے صحراؤں میں پھر رھا تھا زم زم کے چشمہ کے پاس قیام پذیر ھوا اور پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور قبیلہ بنی قطورا بھی حضرت ھاجرہ کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..
اور یوں مکہ جس کا قدیم اور اصل نام بکہ تھا (سورہ آل عمران).. ایک باقائدہ آبادی کا روپ اختیار کرگیا..
اگلے 15 ‘ 20 سال میں چند اھم واقعات ظہور پذیر ھوۓ.. ان میں سے ایک تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا وہ خواب ھے جس میں انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ھوا.. یقیننا” یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک عظیم آزمائش تھی..

:حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی

حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ کا حکم پاکر مکہ تشریف لاۓ اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اپنے خواب کا ذکر کیا.. سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے نے جو اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھے یہ کہہ کر اپنی رضامندی ظاھر کردی کہ اگر یہ اللہ کا حکم ھے تو پھر مجھے قبول ھے آپ حکم ربی کو پورا کریں.. اور پھر عین اس وقت جب کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے والے تھے, اللہ نے ان کو آزمائش میں کامیاب پاکر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ایک مینڈھے سمیت زمین پر بھیجا اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس مینڈھے کی قربانی کی گئی..
اللہ کو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا یہ فعل اتنا پسند آیا کہ پھر تا قیامت اس قربانی کی یاد میں حج پر قربانی فرض کردی اور تب سے ھر سال یہ سنت ابراھیمی جاری ھے اور عید الاضحی’ کے دن لاکھوں مسلمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرکے اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ھیں.. حضرت اسماعیل علیہ السلام مکہ میں ھی فوت ھوۓ اور ایک روایت کے مطابق وہ اور ان کی والدہ حضرت ھاجرہ بیت اللہ کے ساتھ حجر (حطیم) میں مدفون ھیں.. واللہ اعلم..

:خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر

دوسرا اھم واقعہ خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر تھی.. خانہ کعبہ حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور یہ زمین پر اللہ کا پہلا گھر تھا مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی عمارت بھی سطح زمین سے معدوم ھوگئی اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے زمانہ میں اس کا کوئی نشان تک ظاھر نہ تھا.. لیکن پھر اللہ کے حکم پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی خانہ کعبہ کی بنیادوں کی طرف نشاندھی کی اور آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ملکر خانہ کعبہ کی پرانی بنیادوں پر تعمیر کی.. اللہ کا یہ گھر ایسا سادہ تعمیر ھوا کہ اس کی نہ چھت تھی, نہ کوئی کواڑ اور نہ ھی کوئی چوکھٹ یا دروازہ.. کعبہ کو “کعبہ” اس کی ساخت کے مکعب نما ھونے کی بنا پر کہا جاتا ھے.. عربی میں چھ یکساں پہلوؤں والی چیز معکب کہلاتی ھے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تعمیر مکعب حالت میں تھی تو اسے کعبہ کہا جانے لگا.. یاد رھے کہ موجودہ خانہ کعبہ چار کونوں والا ھے جسے قریش مکہ نے اس وقت تعمیر کیا جب ایک سیلاب میں خانہ کعبہ کی عمارت منہدم ھوگئی تھی.. اس کا ذکر آگے آۓ گا..

:حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی

تیسرا اھم واقعہ قبائل جرھم اور بنی قطورا کا حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تبلیغ پر دین حنیف یعنی دین ابراھیمی قبول کرلینا تھا.. خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تولیت یعنی سارا مذھبی انتظام قبیلہ جرھم کے حوالے کردیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی ھوئی..
جب کچھ پشتوں بعد نسل اسماعیل علیہ سلام پھلی پھولی تو پھر خانہ کعبہ کا سارا انتظام خود آل اسماعیل نے سنبھال لیا.. کچھ عرصہ گزرا تو ایک اور قبیلہ “ایاد” مکہ پر حملہ آور ھوا اور شھر پر زبردستی قبضہ کرلیا.. اور اس دوران بنی اسماعیل کے بہت سے قبائل کو مکہ سے نکلنا بھی پڑا.. تاھم بعد میں یمن سے آنے والے ایک اور قبیلہ بنو خزاعہ نے مکہ کو بنی ایاد سے آزاد کرالیا..
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے “قصی بن کلاب” وہ نامور بزرگ گزرے ھیں (جن کی شادی بنو خزاعہ کے رئیس کی بیٹی سے ھوئی تھی) جنہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت واپس لینے کے لیے جدو جہد شروع کی اور بالآخر بنو خزاعہ کی بہت مخالفت کے باوجود اس مقصد میں کامیاب ھوۓ.. انہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت کا انتظام پھر سے ملنے پر قدیم عمارت گرا دی اور خانہ کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرایا اور پہلی بار کجھور کے پتوں کی چھت بھی ڈالی..

construction of Holy Kaba

 

 

درحقیقت قصی بن کلاب ھی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مکہ کو ایک خانہ بدوشانہ شھر سے بدل کر ایک منظم ریاست کی شکل دی.. انہیں بجا طور پر مکہ کا مطلق العنان بادشاہ کہا جاسکتا ھے جن کا ھر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا.. تاھم انہوں نے دیگر قبائل کے سرکردہ افراد کو اپنی مشاورت میں شامل رکھا جبکہ مکہ کا انتظام و انتصرام چلانے کے لیے مختلف انتظامی امور کو چھ شعبوں میں تقسیم کیا اور اپنی اولاد میں ان عہدوں کی تقسیم کی.. یہ نظام بڑی کامیابی سے اگلے 150 سال سے زائد عرصہ تک چلا اور پھر بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب مکہ فتح ھوا تو اسے اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر تبدیل کردیا گیا..
ایک روایت کے مطابق انہی کا لقب قریش تھا جس کی وجہ سے ان کی آل اولاد کو قریش کہا جانے لگا جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق قصی بن کلاب سے چھ پشت پہلے بنی اسماعیل میں “فہر بن مالک” ایک بزرگ تھے جن کا لقب قریش تھا..
خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ قصی بن کلاب اور ان کی اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی عزت و سیادت حاصل ھوگئی تھی اور پھر اس قریش (آل قصی بن کلاب) نے خود کو اس کے قابل ثابت بھی کیا..

قصی بن کلاب نے نہ صرف خانہ کعبہ کا جملہ انتظام و انتصرام کا بندوبست کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مکہ کو باقائدہ ایک ریاست کا روپ دے کر چھ مختلف شعبے قائم کیے اور انہیں قابل لوگوں میں تقسیم کیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا اور یہی نظام بعث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بڑی کامیابی سے چلایا گیا..

اس تقسیم کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد حضرت ھاشم کو سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے کا کام), عمارۃ البیت (حرم میں نظم و ضبط قائم رکھنا اور احترام حرم کا خیال رکھنا) اور افاضہ (حج کی قیادت کرنا) کی خدمات سونپی گئیں جو ان کے بعد بنو ھاشم کے خاندان میں نسل در نسل چلتی رھیں..

حضرت ھاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. نہائت ھی جلیل القدر بزرگ تھے.. انہوں نے شاہ حبشہ اور قیصر روم سے بھی اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرلیے تھے جبکہ مختلف قبائل عرب سے بھی معاھدات کرلیے.. ان کی اس پالیسی کی وجہ سے قریش کے باقی قبائل میں بنو ھاشم کو ایک خصوصی عزت و احترام کا مقام حاصل ھوگیا تھا..

ان کے علاوہ میدان جنگ میں فوج کی قیادت اور علم برداری کا شعبہ خاندان بنو امیہ کے حصے میں آیا.. لشکر قریش کا سپہ سالار بنو امیہ سے ھی ھوتا تھا چنانچہ “حرب” جو حضرت ھاشم کے بھتیجے امیہ کے بیٹے تھے’ ان کو اور انکے بیٹے حضرت ابوسفیان کو اسی وجہ سے قریش کے لشکر کی قیادت سونپی جاتی تھی..

جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو تیم بن مرہ کو اشناق یعنی دیوانی و فوجداری عدالت, دیت و جرمانے کی وصولی اور تعین کی ذمہ داری سونپی گئی..

اس کے علاوہ شعبہ سفارت حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں آیا.. ان کا کام دوسرے قبائل کے ساتھ مذاکرات, معاھدات اور سفارت کاری تھا..

بنو مخزوم جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا.. ان کے حصے میں “قبہ و اعنہ” کا شعبہ آیا.. ان کا کام قومی ضروریات کے لیے مال و اسباب اکٹھا کرنا اور فوجی سازو سامان اور گھوڑوں کی فراھمی تھا.. قریش کے گھڑسوار دستے کا کمانڈر بھی اسی قبیلے سے ھوتا تھا.. اپنا وقت آنے پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مدتوں شہہ سوار دستوں کی کمان نہائت خوش اسلوبی سے سنبھالی..

اسی طرح باقی پانچ شعبوں کی ذمہ داری مختلف قبائل قریش کے حوالے کردی گئی..
———–جاری ہے

Serat-un-Nabi Qist No.1

Kids story qurdat k faslye qabool karna sekho

چھوٹے خرگوش کی کہانی

Serat-un-Nabi Qist No.1

6

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ♥ 

 آج سے سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رھا ھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ھے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جاۓ تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے

قسط نمبر:       ١   سیرت النبی

ملک عرب ایک جزیرہ نما ھے جس کے جنوب میں بحیرہ عرب , مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان , مغرب میں بحیرہ قلزم ھے- تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ھے- مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد بے آب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ھے جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ھیں طبعی لحاظ سے اس ملک کے پانچ حصے ھیں

:نمبر1یمن 

یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رھا ھے جس کو پرامن ھونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا.. آب و ھوا معتدل ھے اور اسکے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ھیں جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ھوتے ھیں -قوم “سبا” کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بناۓ جن میں “مارب” نام کا مشھور بند بھی تھا- اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ھوگئی

:نمبر             2حجاز    

یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقغ ھے.. حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ھے جسے اللہ نے نور ھدائت کی شمع فروزاں کرنے کے لیے منتخب کیا- اس خطہ کا مرکزی شھر مکہ مکرمہ ھے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ھے- حجاز کا دوسرا اھم شھر یثرب ھے جو بعد میں مدینۃ النبی کہلایا جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شھر ھے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ھے- حجاز میں بدر , احد , بیر معونہ , حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ھیں

:نمبر3نجد

-ملک عرب کا ایک اھم حصہ نجد ھے جو حجاز کے مشرق میں ھے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت “الریاض” واقع ھے

:نمبر4حضرموت 

یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ھے- بظاھر ویران علاقہ ھے- پرانے زمانے میں یہاں “ظفار” اور “شیبان” نامی دو شھر تھے

:(مشرقی ساحلی علاقے (عرب امارات

ان میں عمان ‘ الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ھیں- یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ھے

:نمبر5 وادی سیناء 

حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ھے- جہاں قوم موسی’ علیہ السلام چالیس سال تک صحرانوردی کرتی رھی- طور سیناء بھی یہیں واقع ھے -جہاں حضرت موسی’ علیہ السلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں

:نوٹ 

ایک بات ذھن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب , یمن , بحرین , عمان کا علاقہ شامل تھا جبکہ شام , عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ھوۓ اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وھاں نقل مکانی کرکے آباد ھوئی اور نتیجتہ” یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے لیکن اصل عرب علاقہ وھی ھے جو موجودہ سعودیہ , بحرین , عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ھے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ھے

عرب کو “عرب” کا نام کیوں دیا گیا اس کے متعلق دو آراء ھیں- ایک راۓ کے مطابق عرب کے لفظی معنی “فصاحت اور زبان آوری” کے ھیں- عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ھم پایہ اور ھم پلہ نہیں سمجھتے تھے اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے

دوسری راۓ کے مطابق لفظ عرب “عربہ” سے نکلا ھے جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ھیں- چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ھے اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا

The old image of Hijaz Before Nabi arrival -مؤرخین عرب قوم کو تین گروھوں میں تقسیم کرتے ھیں

:عرب بائدہ-i

یہ قدیم عرب لوگ ھیں جو اس ملک میں آباد تھے- ان میں قوم عاد و ثمود کا نام آپ میں سے اکثر نے سن رکھا ھوگا- ان کے علاوہ عمالقہ ‘ طسم ‘ جدیس ‘ امیم وغیرہ بھی اھم ھیں- ان لوگوں نے عراق سے لیکر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں- بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے

یہ قومیں کیسے صفحہ ھستی سے مٹ گئیں اس کے متعلق تاریخ ھمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ھے- لیکن اب بابل ‘ مصر ‘ یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ھورھے ھیں اور کتابیں لکھی جارھی ھیں- جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ھمیں بتاتا ھے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو  – انکو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ھوگئیں

:عرب عاربہ-ii

عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ھے یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ھیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباھی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ھوۓ

قحطان حضرت نوح علیہ السلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلاۓ.. پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پذیر ھوۓ مشھور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا   پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی.. اسکی ایک وجہ تووہ مشھور سیلاب ھے جو “مارب بند ” ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا جسکے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا.. اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ھے

اور دوسری وجہ یہ کہ جب انکی آبادی پھیلی تو مجبورا” ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے.. جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وھاں اپنی آبادیاں قائم کیں.. جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھم مکہ کی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..

بنو قحطان کا ھی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھ یثرب (مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنی اسرائیل کے رھتے تھے انہیں مغلوب کرلیا.. قلعے بناۓ اور نخلستان لگاۓ.. اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشھور قبیلے تھے جنکا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ھے..

:عرب مستعربہ-iii

سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ھونے والے بنو اسماعیل تھے.. انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ھے- حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ھاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا.. اور خود واپس چلے گئے

یاد رھے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ ھی خانہ کعبہ کا وجود.. خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تعمیر ھوا مگر خانوادہ ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ھوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراھیم علیہ السلام مکہ تشریف لاۓ تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی راھنمائی اور نگرانی میں خانہ کعبہ کو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا..

جب شدت گرمی اور پیاس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی حالت خراب ھونا شروع ھوئی تو حضرت ھاجرہ.. ایک عظیم ماں کی وہ بے قرار دوڑ شروع ھوئی جو آج بھی حج کا ایک لازم حصہ ھے..

آپ پانی کی تلاش میں کبھی صفا پہاڑی پر چڑھ کر دور دور تک دیکھتیں کہ شائد کہیں پانی نظر آۓ اور کبھی صفا کی مخالف سمت میں مروہ پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتیں مگر وھاں پانی ھوتا تو نظر آتا. اس دوران جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے رونے کی آواز ماں کے کانوں میں پڑتی تو بے قرار ھوکر ان کے پاس دوڑی دوڑی جاتیں اور جب انکو پیاس سے جاں بلب اور روتا بلکتا دیکھتیں تو پھر دیوانہ وار پانی کی تلاش میں جاتیں

اسی اثناء میں کیا دیکھتی ھیں کہ جہاں ننھے اسماعیل علیہ السلام اپنی ایڑھیاں رگڑ رھے تھے وھاں سے پانی کسی چشمہ کی صورت ابل رھا ھے.. بھاگ کر بیٹے کے پاس پہنچیں. اللہ کا شکر ادا کرتے ھوۓ بیٹے کو پانی پلایا. خود بھی پیا اور پھر اس چشمہ کے ارد گرد تالاب کی صورت میں مٹی کی منڈیر بنادی لیکن جب پانی مسلسل بڑھتے بڑھتے تالاب کے کناروں سے باھر نکلنے لگا تو بے اختیا ر آپ کے مونھ سے نکلا

  اور انکے یہ فرماتے ھی پانی یکدم ٹھہر گیا” زم زم ” (ٹھہر جا ٹھہر جا)

یہاں آپ سے زم زم کے کنویں کے متعلق ایک معجزاتی بات شیئر کرنا چاھتا ھوں.. موجودہ دور میں اس کنوں میں بڑی بڑی موٹریں لگا کر پانی نکالا جاتا ھے کنویں میں پانی کا لیول خانہ کعبہ کی بنیادوں سے ھمیشہ 6 فٹ نیچے رھتا ھے.. کنویں سے 24 گھنٹے لگاتار پانی نکالا جاتا ھے جسکی مقدار ملیئنز آف ملیئنز گیلنز میں ھوتی ھے..

اب دو بہت ھی عجیب باتیں ظہور پذیر ھوتی ھیں.. ایک تو یہ کہ 24 گھنٹے میں مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے کنویں کا جو لیول کم ھوتا ھے وہ بہت تیزی سے محض گیارہ منٹوں میں اپنی اصل جگہ پر واپس آجاتا ھے.. اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ھے کہ اتنی تیزی سے اوپر چڑھنے والا پانی ھمیشہ ھی اپنے لیول یعنی خانہ کعبہ کی بنیادوں سے 6 فٹ نیچے پہنچ کر خود بخود رک جاتا ھے..

یہ اوپر کیوں نہیں چڑھتا..؟

اور اگر یہ پانی خود بخود نہ رک جاۓ تو تب غور کریں کہ اگر 24 گھنٹے نکالا جانے والا پانی صرف 11 منٹوں میں پورا ھوجاتا ھے تو اگر یہ پانی نہ رکے اور اوپر چڑھ کر باھر بہنا شروع کردے تو تب کیا صورت پیدا ھوگی..؟

یقینا” یہ حضرت ھاجرہ کے مبارک فرمان یعنی “زم زم.. ٹھہرجا ٹھہرجا” کی برکت ھے کہ یہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور جتنا بھی اس سے پانی نکال لیا جاۓ یہ بس اپنے اسی لیول تک آ کر خود بخود رک جاتا ھے جہاں کبھی اسے حضرت ھاجرہ نے روکا تھا.. اب اصل موضوع کی طرف پلٹتے ھیں..

اوپر بنو قحطان کے ایک قبیلہ جرھم کا ذکر کیا گیا.. سرزمین عرب کیونکہ زیادہ تر صحرا اور لق و دق پہاڑی علاقہ پر مشتمل ھے اور پانی بہت نایاب ھے تو کسی جگہ آبادی کے لیے بہت ضروری ھے کہ وھاں پانی میسر ھو.. قبیلہ جرھم جب اپنے علاقہ یمن سے نئے وطن کی تلاش میں نکلا تو دوران سفر جب مکہ کی وادی میں پہنچا تو وھاں انکو زم زم کے چشمہ کی وجہ سے ٹھہرنا مناسب لگا.. کیونکہ چشمہ کی مالک حضرت ھاجرہ تھیں تو انہوں نے بی بی ھاجرہ کی اجازت سے چشمہ کے ساتھ میں ڈیرے ڈال دیئے اور آباد ھوگئے.. یوں حضرت ھاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک مضبوط عربی قبیلہ کا ساتھ میسر آیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی   بیٹی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی ھوئی جبکہ خانہ کعبہ بھی ازسر نو تعمیر ھوا-  یوں مکہ بے آب وگیاہ وادی سے ایک آباد شھر کا روپ اختیار کر گیا۔

===============> جاری ھے۔

To Read more about Serat-un-Nabi click here

 

Kids story ایک نیک کسان کی کہانی

1

New Kids Story

ایک نیک کسان کی کہانی

ایک گاؤں میں رحمت نام کا ایک نیک کسان رہتا تھا۔ وہ اپنی سادگی اور ایمانداری کے لیے مشہور تھا۔ رحمت کا چھوٹا سا کھیت تھا جس میں وہ محنت سے فصلیں اگایا کرتا تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھتا، اللہ کا شکر ادا کرتا اور کھیتوں میں کام کرنے نکل جاتا۔

رحمت کا ماننا تھا کہ ایمانداری اور محنت ہی انسان کو کامیابی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔ وہ گاؤں کے بچوں کو بھی اکثر نصیحت کرتا تھا کہ ہمیشہ سچ بولیں اور دوسروں کی مدد کریں۔

ایک دن رحمت اپنے کھیت میں ہل چلا رہا تھا کہ اچانک اسے زمین میں ایک چھوٹا سا صندوق ملا۔ اس نے صندوق کو باہر نکالا اور کھول کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ صندوق میں چمکتے ہوئے سونے کے سکے بھرے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر رحمت کے دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔

“یہ دولت میری زندگی بدل سکتی ہے،” رحمت نے سوچا۔ لیکن پھر اس کے دل نے کہا، “یہ دولت میری نہیں، یہ کسی اور کی ہے۔ مجھے یہ واپس کرنا چاہیے۔” اس کے اندر کی ایمانداری نے اسے کسی غلط قدم سے روک دیا۔

رحمت نے صندوق کو اٹھایا اور گاؤں کے سردار کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے سردار کو سارا ماجرا سنایا اور کہا، “یہ صندوق مجھے کھیت میں ملا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کے اصل مالک کو ڈھونڈنے میں مدد کریں۔” سردار رحمت کی دیانتداری سے بہت متاثر ہوا۔

سردار نے فوراً گاؤں میں اعلان کروایا کہ اگر کوئی اس صندوق کا مالک ہے تو وہ آ کر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرے۔ کئی دن گزر گئے لیکن کوئی بھی صندوق کا دعویدار نہ آیا۔ ہر روز گاؤں کے لوگ رحمت کی ایمانداری کی تعریف کرتے اور دعا دیتے۔

آخر کار سردار نے کہا، “رحمت، چونکہ کوئی اس صندوق کا مالک بننے نہیں آیا، اس لیے یہ اب تمہاری ملکیت ہے۔ اللہ نے تمہیں یہ انعام دیا ہے۔” یہ سن کر رحمت نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سردار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، “یہ دولت صرف میری نہیں بلکہ گاؤں کے لیے بھی ہے۔” اس نے سوچا کہ یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنے گاؤں کے حالات بہتر کرے۔

رحمت نے اس دولت سے گاؤں میں ایک چھوٹا سا اسکول بنوایا تاکہ بچے تعلیم حاصل کر سکیں اور گاؤں کا مستقبل روشن ہو۔ اس نے ایک کنواں کھدوایا تاکہ گاؤں کے لوگ صاف پانی حاصل کر سکیں۔ کنویں کی تعمیر سے گاؤں کے لوگوں کو بہت سہولت ملی۔

اس کے علاوہ، رحمت نے ایک چھوٹا سا اسپتال بھی بنوایا تاکہ گاؤں کے بیمار لوگوں کو علاج کے لیے دور نہ جانا پڑے۔ اس نے کچھ رقم غریبوں کی مدد کے لیے بھی وقف کر دی۔ رحمت ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ دولت کا صحیح استعمال ہی انسان کو کامیاب بناتا ہے۔

گاؤں کے لوگ رحمت کی سخاوت اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ کہتے تھے، “رحمت نے ہمیں سکھایا کہ ایمانداری کا ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔” رحمت کی نیکیوں نے گاؤں کے دوسرے لوگوں کو بھی ایماندار بننے کی ترغیب دی۔ لوگ اس سے سیکھنے لگے کہ زندگی میں ایمانداری اور دوسروں کی مدد کرنا سب سے اہم ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ رحمت کا نام دور دور تک مشہور ہو گیا۔ لوگ اس کی کہانی سننے آتے اور اس کی مثالیں دیتے۔ گاؤں ایک خوشحال اور مثالی جگہ بن گیا، جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد کرتا اور ایمانداری سے زندگی گزارتا۔

Moral of kid Story/کہانی کا سبق

ایمانداری سب سے بڑی دولت ہے۔ اگر ہم ایماندار اور نیک نیت ہوں تو اللہ ہمیں ایسی جگہ سے نوازتا ہے جہاں سے ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمیشہ ایماندار رہیں، دولت کا صحیح استعمال کریں اور دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کریں۔

https://4uquotes.com/%d8%ad%d8%b6%d8%b1%d8%aa-%db%8c%d9%88%d8%b3%d9%81%d8%91-%da%a9%d8%a7-%d9%88%d8%a7%d9%82%d8%b9%db%81/

سیرتِ طیبہ (Serat-un-Nabi)

2

Table of Contents

4uquotes.com

کا تفصیلی تعارف

:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ہماری اردو ویب سائٹ پر، جو اسلام کی تعلیمات، واقعات، اور حکمتوں کا ایک وسیع اور جامع پلیٹ فارم ہے۔ ہماری ویب سائٹ کا مقصد اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو دنیا بھر میں اردو زبان بولنے والے افراد تک پہنچانا اور ان کے ایمان کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ ایک ایسا منفرد پلیٹ فارم ہے جہاں آپ کو اسلامی معلومات، تفریح، اور حکمتوں کا امتزاج ملے گا۔ ہم آپ کو علم کے ایسے موتی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ کی دینی اور دنیاوی زندگی میں روشنی کا ذریعہ بن سکیں۔

:ویب سائٹ کے اہم موضوعات

:اسلامی واقعات

یہاں آپ کو اسلام کی شاندار تاریخ کے اہم واقعات جیسے جنگِ بدر، فتح مکہ، صلح حدیبیہ، اور دیگر یادگار مواقع کی تفصیلات ملیں گی۔ ہر واقعہ کو دلچسپ اور سبق آموز انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ آپ ان واقعات سے سبق حاصل کر سکیں۔

:اقوالِ زریں

بزرگوں اور علماء کرام کے اقوال، جو زندگی میں روشنی اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اس سیکشن کا حصہ ہیں۔ یہ اقوال آپ کو مثبت سوچنے اور بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیں گے۔

:بچوں کے لیے کہانیاں
ہماری ویب سائٹ پر بچوں کے لیے اخلاقی کہانیاں موجود ہیں، جو ان کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں مددگار ہیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ بچوں کو دین اور اخلاقیات سیکھانے کا بہترین ذریعہ بھی ہیں۔

:اسلامی کہانیاں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اولیاء اللہ، اور دیگر مشہور اسلامی شخصیات کی ایمان افروز کہانیاں، جو ہماری روحانی زندگی کو مضبوط بناتی ہیں۔

:نیا اضافہ

اب ہم نے اس ویب سائٹ میں رسول اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ

(Serat-un-Nabi)

کو بھی شامل کیا ہے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی تمام انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس حصے میں ہم آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے، جن میں آپ کی پیدائش، بچپن، اعلانِ نبوت، مکی اور مدنی دور، اور آپ کی تعلیمات شامل ہیں۔

:ہمارا مقصد
ہماری ویب سائٹ کا مقصد اسلام کی حقیقی تعلیمات کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ویب سائٹ علم و آگاہی، روحانی سکون، اور مثبت سوچ کا ایک ذریعہ بنے۔ ہماری یہ کاوش ہر مسلمان کے لیے ہے جو دین کو بہتر طور پر سمجھنا اور اپنی زندگی میں اسلامی اصولوں کو اپنانا چاہتا ہے۔

آپ کی دعاؤں کے طلبگار

4uquotes.com ٹیم 

 

Khudi ko kar buland

0

 

خودی کو کر بلند
Iqbal urdu poetry

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے