Moral Story For Kids

!قدرت کے فیصلے قبول کرنا سیکھو

ایک گاؤں میں ایک چھوٹا سا لڑکا رہتا تھا جس کا نام علی تھا۔ علی بہت ہوشیار اور محنتی تھا، لیکن اس کی ایک عادت تھی جو اسے ہر وقت پریشان کرتی تھی۔ وہ ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا تھا۔ چاہے وہ اس کے کھلونے ہوں، اس کے دوست، یا حتیٰ کہ اس کے ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی چیزیں، علی ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔

ایک دن علی کے گاؤں میں ایک بزرگ صوفی آئے۔ وہ بہت دانا اور پراسرار انسان تھے۔ گاؤں کے لوگ ان کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے اور وہ انہیں بہت اچھے طریقے سے حل کرتے۔ علی نے بھی سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی اپنی پریشانی ان بزرگ کے سامنے رکھے۔

علی بزرگ کے پاس گیا اور کہنے لگا، “بابا جی، میں ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہوں، لیکن ایسا کرنے سے میں ہمیشہ پریشان رہتا ہوں۔ میں کیا کروں؟”

بزرگ نے مسکرا کر علی کی طرف دیکھا اور کہا، “بیٹا، تمہاری پریشانی کا حل بہت آسان ہے۔ تمہیں صرف ایک چیز سیکھنی ہے۔”

علی نے حیران ہو کر پوچھا، “وہ کیا ہے بابا جی؟”

بزرگ نے کہا، “تمہیں سیکھنا ہے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔”

علی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ چیزیں اپنے قابو میں نہیں رکھے گا تو پھر وہ کیسے ٹھیک ہوں گی؟ بزرگ نے علی کی الجھن محسوس کی اور کہا، “چلو، میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔”

بزرگ نے کہانی شروع کی:

“ایک جنگل میں ایک چھوٹا سا پرندہ رہتا تھا۔ وہ پرندہ بہت خوبصورت تھا اور اس کے پر رنگ برنگے تھے۔ وہ ہر روز اڑتا، گاتا، اور درختوں کے درمیان خوشی سے زندگی گزارتا تھا۔ لیکن ایک دن اس پرندے نے دیکھا کہ ایک بڑا سا طوفان آنے والا ہے۔ بادل گرج رہے تھے اور ہوا تیز ہو رہی تھی۔

پرندے نے سوچا کہ اگر طوفان آ گیا تو اس کا گھونسلہ ٹوٹ جائے گا اور وہ بے گھر ہو جائے گا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ طوفان کو روکنے کی کوشش کرے گا۔ وہ اڑتا ہوا بادلوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگا، ‘براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے خوبصورت پر دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

بادلوں نے پرندے کی بات سنی اور مسکرا کر کہا، ‘ہم تمہارے پر نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام بارش برسانا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے نے یہ بات سنی لیکن اسے سمجھ نہیں آئی۔ وہ پھر ہوا کے پاس گیا اور کہنے لگا، ‘اے ہوا، براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے گیت دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

ہوا نے پرندے کی بات سنی اور کہا، ‘ہم تمہارے گیت نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام ہوا چلانا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پھر درخت کے پاس گیا اور کہنے لگا، ‘اے درخت، براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے انڈے دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

درخت نے پرندے کی بات سنی اور کہا، ‘ہم تمہارے انڈے نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پھر زمین کے پاس گیا اور کہنے لگا، ‘اے زمین، براہ کرم، تم میرے گھونسلے کو مت توڑنا۔ میں تمہیں اپنے پتے دے دوں گا اگر تم میرے گھونسلے کو بچا لو۔’

Qurdat k faslye qabool karna sekho
Qurdat k faslye qabool karna sekho

زمین نے پرندے کی بات سنی اور کہا، ‘ہم تمہارے پتے نہیں لے سکتے۔ ہمارا کام ہر چیز کو اپنے اندر سموئے رکھنا ہے، اور یہ طوفان بھی قدرت کا حصہ ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں۔’

پرندے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ پھر اپنے گھونسلے میں واپس آیا اور سوچنے لگا کہ اب وہ کیا کرے۔ طوفان آیا اور اس کا گھونسلہ ٹوٹ گیا۔ پرندہ بہت اداس ہوا لیکن اس نے دیکھا کہ طوفان کے بعد آسمان صاف ہو گیا اور ایک نیا دن شروع ہوا۔

پرندے نے سوچا کہ شاید بزرگ کی بات درست تھی۔ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے ایک نئے سرے سے اپنا گھونسلہ بنایا اور پھر سے خوشی سے زندگی گزارنے لگا۔”

بزرگ نے کہانی ختم کی اور علی کی طرف دیکھا۔ علی نے کہا، “بابا جی، کیا یہ کہانی میرے لیے ہے؟”

بزرگ نے مسکرا کر کہا، “ہاں بیٹا، یہ کہانی تمہارے لیے ہے۔ تمہیں سیکھنا چاہیے کہ کچھ چیزیں ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ جب تم یہ سیکھ لو گے تو تمہاری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔”

علی نے بزرگ کی بات غور سے سنی اور اسے سمجھ میں آ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ وہ سیکھ گیا تھا کہ کچھ چیزیں قدرت کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، اور انہیں ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے۔

علی نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس چلا گیا۔ اس دن کے بعد سے علی کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ وہ اب ہر چیز کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اور اس کی پریشانیاں ختم ہو گئی تھیں۔

“جو چیز قابو میں نہ ہو، اسے جانے دو”

https://4uquotes.com/serat-un-nabi-episode-no-2

Kids story ایک نیک کسان کی کہانی

چھوٹے خرگوش کی کہانی

1 COMMENT

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here